Wednesday 4 October 2017

"Suno ik baat kehni hay" سنو! اک بات کہنی ہے

 گفتار کے غازی

 

سنو! اک بات کہنی ہے
سنو! باتیں ہزاروں ہیں
مگر اک مخمصہ بھی ہے
یہی مشکل کہ ان باتوں کو
ہم الفاظ کی صورت میں
ڈھالیں گے بھلا کیونکر
کہ یہ الفاظ کی صورت گری بھی
پیشۂِ آذر کی طرح
ایک مشکل فن ہے
جس کو سیکھنا
ہر اک کے بس کی بات
ہے اور نہ کبھی ہوگی
کہ یہ فن تو عطا ہے
اور عطا ہر ایک کو
سب کچھ نہیں ہوتا




مگر جو بات کہنی ہے
اسے کہنا بھی لازم ہے
کوئی اظہار کا ذریعہ
کہیں ایسا بھی تو ہوگا
جو ان الفاظ کی صورت گری
سے ماورا
احساس کی توحید سے تشکیل پاتا ہو
جو ہم آہنگ ذہنوں کو
کسی نادیدہ ڈوری میں پروتا ہو
کوئی ہوگی کہیں ایسی بھی تو دنیا
جہاں احساس ہی خود
رابطے کا ایک ذریعہ ہو
جہاں الفاظ کے بے جان بت
بے وقعتی کا طوق پہنے
بے بسی کی اک علامت ہوں
جہاں جذبوں کی سچائی مقدّم ہو



مگر جو بات کہنی ہے
تجھے قصے سنانے ہیں
بنا الفاظ کے کہنا کہاں ممکن؟
کہ ہم گفتار کے غازی
بنا الفاظ کے کچھ کر نہیں سکتے
تو کیوں نہ یوں کریں
الفاظ اپنے معتبر کرلیں
اور ان کو اپنے دل کی ترجمانی دیں
اگر الفاظ سچے ہوں
تو احساسات سے خالی نہیں ہوتے
کہ جذبوں کا خدا
بےجان بت کو زندگی دے کر
اسے تعظیم کے قابل بناتا ہے
اسے انساں بناتا ہے!



ہدایت الله
۲۰۱۷

Friday 5 May 2017

Oath and role models

ارحم کی کلاس دوسری منزل پر تھی اور اس کا بیگ اتنا بھاری تھا کہ اس سے اٹھائے نہیں اٹھتا تھا۔ مجبوراً ہم نے اس کے لئے اسکول کی ایک آیا جی سے بات کی کہ بیگ اوپر لے جانے میں اس کی مدد کر لیا کرے۔ یہ انتظام کچھ عرصہ بخوبی چلتا رہا۔

ارحم ساتویں جماعت میں ہو گیا اور اسے ہاؤس کیپٹن (house captain) کی سیش (sash) مل گئی۔ ساتھ ہی اس کا بیگ مزید بھاری ہوگیا۔ سیش ملنے کے اگلے دن جب میں بچوں کو اسکول چھوڑنے گیا تو ارحم کہنے لگا کہ آج کے بعد وہ اپنا بیگ خود اٹھائے گا۔ میں نے اس وقت بات سنی ان سنی کردی لیکن بعد میں جب اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا۔ "بابا میں نے ہاؤس کیپٹن کا اوتھ (oath) لیا ہے جس میں لکھا ہے کہ میں باقی بچّوں کے لئے رول ماڈل (role model) بنوں گا۔ اگر میرا بیگ آیا لے جائے گی تو بچّے کہیں گے کہ یہ کیسا رول ماڈل ہے جو اپنا بیگ خود نہیں لے جا سکتا۔" میں نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔ "تمہیں اپنا حلف یاد ہے؟" اس نے کہا۔ "جی ہاں، ظاہر ہے۔" اور پھر اس نے مجھے اپنا حلف پڑھ کر سنا دیا۔

میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ جس طرح ایک بچّے کو اپنے اٹھائے ہوئے حلف کا احساس ہے اسی طرح اگر ہماری قوم کے سب عہدیداروں کو اپنے حلف کا احساس ہوجائے تو ہم کہاں سے کہاں پہنچ جائیں اور جس طرح ایک بچّے کو اپنے رول ماڈل ہونے کا احساس ہے اسی طرح اگر ہم بڑوں کو بھی یہ احساس ہو جائے تو ہمارے بچّے کہاں سے کہاں پہنچ جائیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ارحم تو بچّہ ہے۔ ناسمجھ ہے۔ جب عملی زندگی میں قدم رکھے گا تو اس اخلاقی رومانویت (moral romanticism) سے نکل آئے گا۔ کیونکہ بہرحال ہم بڑے ہیں اور زیادہ سمجھدار ہیں۔

Religion and Culture

Religion and culture often intermingle and overlap to an extent that often it's quite hard to differentiate between them. There are areas where religion dominates culture and there are occasions where culture overrides religion. Newly acquired scientific knowledge is fast becoming the third factor shaping our social fabric. The society progresses by an intelligent interaction between religio-cultural complex and the newly acquired scientific knowledge though it's a slow and tedious process and takes a time longer than a lifetime.